Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر27

خود تیار ہونے کے بعد اُس نے آئینے میں اپنا جائزہ لیا تھا۔ ریڈ کلر کے نفیس سے کامدار سوٹ میں وہ کِھلی کِھلی سی لگ رہی تھی۔ افرحہ نے اُسے بتایا تھا کہ ریڈ کلر درید کو بہت پسند ہے۔ اِسی لیے اُس نے ریڈ ڈریس پہنا تھا۔ میچنگ جیولری، سینڈل، اور پُشت پہ کھلے بال چھوڑے وہ حسین ترین لگ رہی تھی۔ اُس نے حجاب نہیں لیا تھا۔ شاہ میر کو اُس نے بلیو کلر کا ریڈی میڈ ڈریس پہنایا تھا۔ اور اب تیار سی بیٹھی درید کا انتظار کر رہی تھی۔ تقریباً پندرہ منٹ بعد نادیہ بیگم اُس کے کمرے میں آئیں۔ "نور بیٹا دُرید باہر آپ کا ویٹ کر رہا ہے جلدی سے جاو اب۔" نادیہ بیگم نے اُس کے سر پہ پیار دیتے کہا۔ ماما وہ گھر نہیں آئیں گے؟ ساوی نے حیرت سے پوچھا۔ "نہیں اُس کا کہنا ہے کہ ایسے لیٹ ہو جائے گا اور آج شاید تُم لوگ باہر ہی رہو درید نے کہا ہے کہ آج تُم لوگ گھر نہیں آو گے۔ شاید اُس کے کسی دوست کی طرف جانا ہو۔" نادیہ بیگم کی بات پر وہ حیران ہوئی۔ "انہوں نے ایسا تو کُچھ نہیں بتایا مُجھے" وہ الجھی۔ "یاد بھول گیا ہوا گا اب جلدی سے جاؤ شاباش۔" نادیہ بیگم اُسے لیے باہر آگئی پھر اُن سے ملتے ساوی شاہ میر کو اُٹھائے باہر آئی جہاں درید بیٹھا اُس کا انتظار کر رہا تھا۔ درید نے اُسے دیکھا تو دیکھتا رہ گیا وہ اتنی حسین لگ رہی تھی۔ اپنے فیورٹ کلر میں اُسے دیکھ کر اُس کا دل زور سے دھڑکا تھا کیا اُس کا فیصلہ ٹھیک تھا کہیں ساوی پھر اُس سے جدا ہو گئی تو؟ ذہن میں کئی سوچیں آئیں مگر وہ اُن سب کو جھٹکتا اپنی بیوی اور بچے کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ساوی کے بیٹھتے ہی اُس نے گاڑی سٹارٹ کی۔ گاڑی میں خاموشی سی چھائی ہوئی تھی۔ "بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔ اتنی کہ میرا دل واپس گھر جانے کو کر رہا ہے۔" بالآخر خاموشی کو درید کی شرارتی آواز نے توڑا۔ جو اب اُس کا ہاتھ پکڑ چکا تھا۔ "سامنے دیکھ کے دھیان سے گاڑی چلائیں نا" ساوی جھینپتی ہوئی بولی۔ "ڈونٹ وری مُجھے پتہ ہے میرے ساتھ میری دُنیا ہے دھیان سے ہی چلاوں گا۔" درید نے اُس کا ہاتھ دِل کے مقام پر رکھتے ہوئے کہا۔ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ کُچھ دیر کی چپ کے بعد ساوی نے پوچھا۔ "پہلے ہم ڈنر کریں گے پھر ایک اور جگہ جائیں گے۔" درید نے جواب دیا۔ کہاں؟ ساوی نے پوچھا ۔ "ڈنر کے بعد خود چل کر دیکھ لینا۔" درید نے اُسے ٹالا تو وہ بھی خاموش ہو گئی۔ ایک ریسٹورینٹ کے سامنے درید نے گاڑی روکی۔ شاہ میر کو اُٹھائے درید نے ساوی کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ اُسے لے کے وہ ایک فیملی کیبن میں پہنچا جو اُس نے پہلے سے بُک کروایا ہوا تھا۔ درید نے ویٹر کو بلا کے ڈنر کا آرڈر دیا۔ اُس نے ساری ڈشز ساوی کی پسند سے منگوائی تھیں۔ شاہ میر کو درید نے تھاما ہوا تھا جو ٹکر ٹکر کیبن کے اندر جلتی چھوٹی چھوٹی بتیوں کو دیکھ رہا تھا۔ کھانے کے دوران وہ ساوی کے تاثرات بھی دیکھتا رہا جو رغبت سے کھا رہی تھی یعنی اُس کا لاشعور اپنی پسند کو پہچانتا تھا۔ ساوی اُس سے ہلکی پھلکی باتیں بھی کر رہی تھی جس میں زیادہ باتیں شاہ میر کی تھی جو سارا دِن اُسے خود میں اُلجھائے رکھتا تھا۔ ڈنر کے بعد درید بل پے کرتا اُٹھا اور ساوی کو ساتھ لیے واپس گاڑی میں آیا۔ اور گاڑی میں بیٹھتے ہی گاڑی سٹارٹ کر دی۔ ساوی بور ہو رہی تھی کیونکہ اُس کے پاس سے باتیں ختم ہوگئیں تھیں۔۔ اُس نے میوزک آن کر دیا اور راحت فتح علی خان کی آواز گاڑی میں گونجنے لگی۔ تیری آنکھوں کے دریا کا اترنا بھی ضروری تھا محبت بھی ضروری تھی بچھڑنا بھی ضروری تھا ضروری تھا کہ ہم دونوں طوافِ آرزو کرتے مگر پھر آرزؤں کا بکھرنا بھی ضروری تھا تیری آنکھوں کے دریا کا اترنا بھی ضروری تھا اُس نے ایک پل کے لیے درید کی جانب دیکھا تھا اور اُس کی نظروں کو خود پر محسوس کر کے درید نے بھی اُس کی طرف دیکھا تھا۔ ساوی کی آنکھ سے ایک آنسو گرا تھا جسے صاف کرتے ہوئے اُس نے اپنا رُخ کھڑکی کی طرف کر لیا تھا وہی ہیں صورتیں اپنی وہی میں ہوں وہی تم ہو مگر کھویا ہوا ہوں میں مگر تم بھی کہیں گم ہو محبت میں دغا کی تھی سو کافر تھے سو کافر ہیں ملی ہیں منزلیں پھر بھی مسافر تھے مسافر ہیں تیرے دل کے نکالے ہم کہاں بھٹکے کہاں پہنچے مگر بھٹکے تو یاد آیا بھٹکنا بھی ضروری تھا محبت بھی ضروری تھا بچھڑنا بھی ضروری تھا۔ ساوی نے اپنا چہرہ صاف کرتے ہوئے ٹیپ بند کر دی۔ اُسے نہیں پتہ تھا کہ وہ کیوں روئی تھی مگر اُس کا دل بھرا رہا تھا۔ "دد درید مم مجھے رونا آرہا ہے۔" اُس نے درید کی طرف دیکھتے معصومیت سے کہا۔ کیوں کیا ہوا میری چڑیا کو؟ اُس نے پریشانی سے پوچھا۔ "پپ پتہ نہیں۔ ایک بب بات پوچھوں۔" نفی میں سر ہلاتے اُس نے پوچھا۔ "پوچھو لیکن پہلے رونا بند کرو۔" ساوی کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کے وہ تڑپ اُٹھا تھا۔ "آپ کک کبھی مُجھے چچ چھڑیں گے تو نہیں نا۔ اگر کبھی مجھے میری پچھلی زندگی یاد نہیں آئی آپ کے ساتھ بیتا وقت یاد نہیں آیا مجھے آپ سے محبت نہیں ہوئی تو کیا آپ پھر بھی مُجھ سے ایسے ہی پیار کریں گے؟ وہ نم آنکھوں سے اُس کی جانب دیکھتی پوچھ رہی تھی۔ درید نے یکدم گاڑی کو بریک لگایا۔ "کیسی باتیں کر رہی ہو؟ تُمہیں لگتا ہے کہ میں تُمہیں اِس وجہ سے چھوڑ دوں گا کہ تُمہیں کُچھ یاد نہیں؟ کوئی سانسوں کے بغیر جی سکتا ہے؟ کوئی دل کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے ؟ تُم میرا دل ہو میری سانسیں ہو خود کو بھول سکتا ہوں تُمہیں نہیں۔ تُم میرے لیے بہت ضروری ہو سمجھی آئیندہ ایسی کوئی سوچ اپنے ذہن میں مت لانا۔ تمہیں مجھ سے محبت نہیں ہے تو کوئی بات نہیں مگر تھوڑا سا یقین کر لو۔" اُس کا ہاتھ اپنے لبوں سے لگاتا اُس کے ماتھے پہ پیار کرتا وہ جزبات سے بوجھل لہجے میں بول رہا تھا۔ اور ساوی کے دل سے ہر خدشہ ہر خوف مٹتا جا رہا تھا۔ وہ نم آنکھوں سے مسکرا دی تو درید بھی ساوی کو مسکراتا دیکھ گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔ شاہ میر ساوی کی گود میں سو رہا تھا۔


نادیہ بیگم، افرحہ اور شایان ڈائیننگ روم میں بیٹھے ڈنر کر رہے تھے بوا ان کو سرو کر رہیں تھیں۔ "بوا آپ بھی جا کر کھانا کھا لیں یہ کام بعد میں کر لیجیے گا" نادیہ بیگم نے بو کو ٹوکتے ہوئے کہا۔ "جی بیگم صاحبہ" بوا مسکراتی کچن میں چلیں گئیں۔ گُڑیا کہاں ہے ماما اُسے ڈنر نہیں کرنا؟ شایان نے ساوی کی غیر موجودگی محسوس کرتے کہا۔ "ساوی نہیں ہے یہ تو نظر آگیا۔ مگر ساوی کا شوہر بھی نہیں ہے یہ نظر نہیں آیا۔" نادیہ بیگم نے خفگی سے کہا۔ "اُس نے کام تو بہت اچھا کیا ہے جو وہ مجھے نظر آئے" شایان نے طنزیہ کہا۔ "وہ شرمندہ ہے اپنی غلطی پہ۔ مداوہ بھی کر رہا ہے ساوی کو اتنا خوش رکھتا ہے وہ۔ اب سب ٹھیک ہے ساوی کی زندگی میں" نادیہ بیگم نے درید کی صفائی پیش کی۔ "ساوی کے ساتھ اُس نے غلط کیا تو وہ اُس کا مداوہ کر رہا ہے ساوی خوش ہے سب خوش ہیں۔ مگر میرے بابا وہ کہاں ہیں؟ درید نے جو کیا وہ سب کُچھ بابا برداشت نہیں کر پائے اِسی لیے ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ اُس کا کیا ماما ؟ اگر وہ وہ سب نہ کرتا تو آج بابا بھی ہمارے ساتھ ہوتے۔" شایان کے لہجے میں اذیت تھی۔ "شایان کی بات پر نادیہ بیگم اور افرحہ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ جانتی ہوں مگر سب کی موت کا وقت متعین ہوتا ہے۔ تمہارے بابا کی موت بھی ایسے ہی لکھی تھی بس وجہ درید بن گیا۔ مگر وہ بھی تو ایسا نہیں چاہتا تھا۔ " نادیہ بیگم نے اُسے سمجھانا چاہا۔ "مگر ماما۔۔۔۔ شایان نے کہنا چاہا کہ افرحہ اُس کی بات کاٹ گئی۔ "ماما ٹھیک کہہ رہیں ہیں شان۔ درید بھائی کو بھی دکھ ہے اُنہوں نے بھی بہت تکلیفیں برداشت کی ہیں سب نے اُنہیں معاف کر دیا ہے آپ بھی کردیں۔" افرحہ نے اُس کی طرف دیکھتے امید سے کہا۔ "ٹھیک ہے آج آئے گا تو اُسے معافی کا پروانہ دے دوں گا میں۔" شایان نے منہ بسورتےکہا۔ "میرا اچھا بیٹا" نادیہ بیگم نے اپنی جگہ سے اُٹھتے اُس کے ماتھے پر بوسہ دیا تو افرحہ آسودگی سے مسکرا دی فائنلی سب ٹھیک ہونے والا تھا۔


آج درید اُسے اپنے فلیٹ میں لے جانے والا تھا شاید وہاں جا کے اُسے کُچھ یاد آجاتا۔ وہ اُسے ہر اُس جگی لے گیا تھا جہاں سے اُس کی یادیں جُڑیں تھیں صرف اُس فلیٹ میں نہیں لے کے گیا تھا جہاں درید سے وہ گُناہ ہوا تھا۔ اُس کا ارادہ تھا کہ وہ جلد ہی اُسے وہاں لے جائے مگر دل میں ایک خوف طاری ہو جاتا کہ سب یاد آنے کے بعد ساوی کا فیصلہ۔کیا ہو گا؟ کیا وہ اُسےقبول کرے گی؟ اُسے معاف کر دے گی؟ مگر پھر وہ اپنے دل پہ کڑا پہرہ بٹھائے آج اُسے وہاں لے جا رہا تھا وہ نہیں جانتا تھا کہ آگے کیا ہو گا اُس نے سب کُچھ خدا پہ چھوڑ دیا تھا۔ ابھی فلیٹ پہنچنے میں بیس منٹ تھے جب درید کو گاڑی روکنی پڑی۔ سامنے سڑک پر کوئی لیٹا ہوا تھا۔ درید گاڑی روکتا باہر نکلنے لگا۔ "مت جاضیں مجھے ڈر لگ رہا یے۔" ساوی نے اُس کا بازو پکڑتے کہا۔ "کُچھ نہیں ہو گا ریلیکس۔ تُم بس گاڑی میں ہی رہنا"۔ درید اُسے تسلی دیتا باہر نکل گیا۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا اُس وجود کے پاس پہنچا اور اُسے سیدھا کرنے لگا کہ وہ ایک دم سے اچھلا اور درید کو دھکا دیتے ایک پنچ اُس کے منہ پہ گیا۔ درید اِس وار سے بچ نہ سکا اور ایکدم پیچھے کو گِرا۔ جب وہ سیدھا ہوا تو اُس کے ہاتھ میں پسٹل تھا۔ وہ کوئی چوبیس پچس سال کا لڑکا تھا۔ درید ابھی اُسے دیکھ ہی رہا تھا کہ جھاڑیوں کی طرف سے ایک اور اُسی کی عمر کا لڑکا اُس کے ساتھ آکے کھڑا ہو گیا۔ "چلو جو ہے نکال دو ورنہ بھیجا اُڑا دوں گا" پہلے والا لڑکا پسٹل کو درید پر تانتا ہوا بولا۔ کیا چاہیے؟ درید نے سکون سے پوچھا۔ "پہلے چل گاڑی کے پاس چل۔" اب کی بار دوسرا لڑکا بولا۔ "تمہیں جو چاہیے یہیں لے لو میں دینے کے لیے تیار ہوں" کیوں وہاں کوئی خزانہ چُھپا رکھا ہے؟ پہلا لڑکا تمسخر سے بولا ۔ ساوی جو درید کو جاتا دیکھ رہی تھی اُسے نیچے گِرتے دیکھ اور پھر اُس لڑکے کے ہاتھ میں پسٹل دیکھ کر پریشان ہوگئی۔ درید نے اُسے گاڑی سے نکلنے سے منع کیا تھا مگر دل کا کیا کرتی اُس نے شاہ میر کو پچھلی سیٹ پر لٹایا اور خود باہر نکل آئی۔ درید؟ پاس پہنچتے ہی ساوی نے پکارا۔ درید اُس کی آواز سُنتا جھٹ سے اُس کی طرف مُڑتا اُسے اپنے پیچھے چھپا گیا ۔ "اوہ تو یہ تھا وہ خزانہ جو گاڑی میں چھپا رکھا تھا۔ چل اب ہمیں صرف یہی چاہیے اور کُچھ نہیں۔" دونوں لڑکے جو خباثت سے ساوی کو دیکھ رہے تھے اُن میں سے ایک بولا۔ درید صرف ساوی کی وجہ سے چپ تھا جو گاڑی میں شاہ میر کے ساتھ تھی ورنہ وہ دو لڑکے اُس کے ایک ہاتھ کی مار تھے۔ اُس لڑکے کی بات سُن کر اُس کا خون ایک دم کھول اُٹھا۔ "بکواس بند کرو اپنی ورنہ زبان کھینچ لوں گا" وہ بھڑکا تھا۔ "بکواس نہیں کر رہے چل شاباش اِسے ہمارے حوالے کر اور نکلتا بن۔" اُن میں سے ایک ساوی کے قریب آتا بولا۔ درید سے برداشت نہ ہوا اور اُس نے رکھ کے ایک مکہ قریب آنے والے لڑکے کے منہ پر دے مارا۔ ساوی خوف سے کانپ رہی تھی وہ دو تھے اور اُن کے پاس پسٹل بھی تھا اور درید اکیلا۔ اگر کُچھ ہو گیا تو وہ کیا کرے گی۔ وہ لڑکا درید سے گھتم گتھا تھا جبکہ دوسرے لڑکے نے ساوی کا بازو پکڑ کے اپنی طرف کھینچا جس کی وجہ سے اُس کی قمیض کا بازو ایک طرف سے پھٹ گیا بے ساختہ اُس کے منہ سے چیخ نکلی۔ درید اُس کی چیخ سُنتے اُس کی طرف متوجہ ہوا اور اُس لڑکے کو چھوڑتا دوسرے پر پل پڑا خ۔ اُس لڑکے کے ہاتھ میں پسٹل تھی۔ درید نے ٹانگ مار کر اُسے نیچے گِرایا جس سے ہسٹل دور جا گِری۔ لاتوں گھونسوں سے اُس لڑکے کی تواضع کرتا درید بُری طرح ہانپ رہا تھا۔ ساوی خوف سے پیلی پڑچکی تھی کوئی منظر تھا جو اُس کے دماغ پر کچوکے لگا رہا تھا۔ کوئی اُس کی طرف لڑکھڑاتا ہوا بڑھ رہا تھا وہ اُس کی منتیں کر رہی تھیں مگر وہ وجود اُس کی کوئی بات نہیں سُن رہا تھا۔ لاشعور میں چلتی دھندلی سی فلم اُس کے اعصابوں پر کاری ضرب لگا رہی تھی ایک دم اُس کے حواسوں نے اُس کا ساتھ چھوڑا تھا اور وہ چکرا کے زمیں پر گِری تھی درید جو دوسرے لڑکے کو بُری طرح پیٹ رہا تھا چونک کر اُس کی طرف متوجہ ہوا اور اسے چھوڑتا ساوی کی طرف بھاگا۔ وہ لڑکے مار کھانے کے بعد وہاں سے بھاگ نکلے تھے جبکہ اُن کا پسٹل بھی وہاں پڑا رہ گیا تھا۔ درید نے ساوی کو بازووں میں بھرا تھا اور اُسے جلدی سے فرنٹ سیٹ پر بٹھا کر اُسکی سیٹ بیلٹ باندھی تھی شاہ میر کی تلاش میں پچھلی سیٹ پر نظر دوڑائی تو وہ پرسکون سا سو رہا تھا۔ اُس نے شاہ میر کو اُٹھا کے اپنے سینے سے لگایا تھا اور پھر ایک ہاتھ سے گاڑی ڈرائیو کرنے لگا تھا۔


وہ ریش ڈرائیو کرتا اُسے اپنے فلیٹ لے آیا تھا اِس وقت اُسے صرف ساوی کی فکر تھی کوئی اور سوچ اُس کے ذہن تک رسائی حاصل نہ کر پا رہی تھی۔ گاڑی رُکتے ہی وہ شاہ میر کو لیتا جلدی سے اندر بڑھ گیا تھا۔ بیڈ پہ اُسے لٹا کے اُس کے اطراف میں تکیے رکھے تھے تاکہ وہ گِر نہ جائے۔ پھر واپس بھاگتا ہوا گاڑی تک آیا اور ساوی کو بانہوں میں اُٹھائے وہ ایک بار پھر تیزی سے اندر کی طرف جا رہا تھا۔ کمرے میں جا کے اُس نے بیڈ کے ایک طرف ساوی کو لٹایا تھا جبکہ دوسری سائیڈ پر شاہ میر تھا۔ وہ ایک نظر شاہ میر کو دیکھتا ساوی کے پاس جا کر بیٹھ گیا اور غور سے اُس کا چہرہ دیکھنے لگا جہاں بے ہوشی میں بھی خوف کے تاثرات تھے اور ماتھے پہ پسینہ آیا ہوا تھا۔ درید جانتا تھا کہ وہ کس یاد کو یاد کر کے اتنا ڈری ہے اب اُسے ساوی کی فکر ہو رہی تھی ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اُسے سٹریس سے دور رکھنا ہے۔ وہ اُٹھا اور جگ سے پانی کا گلاس بھرا اور ہلکے ہلکے چھینٹے اُس کے منہ پر مارنے لگا۔ وہ آہستہ آہستہ کُچھ بڑبڑاتی ہوش میں آرہی تھی۔ درید نے کان لگا کر سننے کی کوشش کی اور دھک سے رہ گیا۔ "نن نہیں درید پلیز نن نہیں کریں میرے سس ساتھ ایسا۔ جج جانے دد دیں مم معاف نہیں کک کروں گی۔" وہ بڑبڑا رہی تھی اور دُرید کی جان نکل رہی تھی۔ "ساوی میری جان آنکھیں کھولو کُچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہے" درید نے اُس کا چہرہ تھپتھپایا۔ اُس کا لمس چہرے پہ محسوس کرتے ساوی نے آنکھیں کھولیں اور ایک جھٹکے سے اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ اُس نے اپنے سامنے بیٹھے دُرید کو دیکھا اور پھر اپنے کپڑوں کو اور ایکدم آگے بڑھ کر اُس کے سینے سے لگ گئی۔ درید گنگ سا رہ گیا وہ تو کسی بہت بُرے ری ایکشن کی اُمید کر رہا تھا۔ دد درید مم میں نے بب بہت بُرا خواب دیکھا مم میں نے دد دیکھا آ آپ نے شش شراب پپ پی کر میرے سس ساتھ۔۔۔ میری ععع عزت سے کک کھیلنے کک کی کوشش۔۔۔۔۔وہ اٹک ٹک کر کہتی رُکی اور دُرید کو ورطہ حیرت میں ڈال گئی۔ " مم مگر ایسا کک کُچھ نن نہیں ہے وہ صص صرف خواب تھا مم میں بب بلکل ٹھیک ہہ ہوں دیکھیں آپ بب بھی مم میرے پاس ہیں۔ اور آ آپ نن نے شش شراب بھی نن نہیں پی۔" وہ سسکیاں بھرتی ہکلا کر بولتی درید کے سینے سے لگ گئی اور دُرید میں اتنا حوصلہ بھی نہ ہوا کہ وہ اُس کے گِرد اپنی بانہوں کا حصار بھی باندھ سکے۔ "وہ صرف خخ خواب تھا اور کک کُچھ نہیں مم میرے دُرید میری سس ساتھ ایسا کر ہی نہیں سس سکتے مگر دد دُرید مم مجھے ایسا خواب کیوں آیا؟" وہ اپنی سسکیوں پہ قابو پانے کی کوشش کرتی اُس سے پوچھ رہی تھی۔ مگر وہ کیا جواب دیتا اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی ساوی کو کیسے بتائے۔ پھر اُس کے بیٹے نے اُس کی یہ مُشکل حل کر دی۔ شاہ میر اُٹھ چُکا تھا اور اب گلا پھاڑ پھاڑ کر رونے لگا تھا۔ ساوی درید کے سینے سے الگ ہوتی حیرت سے اُس روتے ہوئے بچے کو دیکھنے لگی جس پر ابھی تک اُس کی نگاہ نہیں پڑی تھی۔ یہ کون ہے؟ وہ سوالیہ ہوئی۔ درید اُٹھ کھڑا ہوا اور شاہ میر کو اُٹھا کر دوبارہ ساوی کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ "دیکھو" درید نے شاہ میر کو اُس کی طرف بڑھایا۔ ساوی نے شاہ میر کا چہرہ دیکھا اور پھر درید کو۔ "یہ تو بلکل آپ جیسا ہے اور اِس کی آنکھیں بلکل میری جیسی ہیں۔" بلکہ یہ تو ہم دونوں جیسا ہے درید" شاہ میر کو حیرت سے دیکھتی بول رہی تھی جو روئے جا رہا تھا۔ "اِسے فیڈ کرواو بھوک کی وجہ سے رو رہا ہے" درید کی بات سُن کر وہ حیرانی سے اُچھل پڑی۔ "کک کیسی باتیں کک کر رہے ہیں آپ مم میں کک کیسے ؟؟ اا اِس کی ماں کہاں ہے؟ وہ شرم سے سُرخ چہرے کے ساتھ نظریں چُراتی ہوئی بولی۔ "تُم ہی اِس کی ماں ہو میری چڑیا اِسے فیڈ کرواو میں ابھی آتا ہوں۔" وہ سنجیدہ لہجے میں کہتا باہر نکل گیا۔ ساوی حیران پریشان سی اُسے گود میں لینے لگی اُس کی گود میں آتے ہی وہ پُرسکون ہو گیا ساوی کو ایک عجیب سی ممتا محسوس ہوئی وہ سب کُچھ بھلائے پیار سے اُس کا سر سہلانے لگی۔ دس منٹ بعد دُرید کمرے میں آیا تو اُس کے ہاتھ میں اُس کا موبائل فون تھا۔ جو وہ ساوی کی پریشانی میں گاڑی میں ہی بھول گیا تھا۔ شاہ میر فیڈ کرتے ہی دوبارہ سو گیا تھا۔ درید ساوی کے پاس بیٹھا اور اپنا فون کھولتا ساوی کے سامنے کرنے لگا۔ ساوی نے الجھن سے فون پکڑا اور فون کے اندر موجود تصویریں دیکھنے لگی۔ جو ساوی کے گھر واپس آنے کے بعد کی تھیں جن میں وہ زیادہ تو شاہ میر کے ساتھ تھی کُچھ درید شاہ میر اور ساوی کی تھیں۔ کُچھ تصویریں تب کی تھیں جب ساوی گھر واپس آئی تھی دُرید کے ساتھ۔ سب تصویروں کو دیکھتے دیکھتے آہستہ آہستہ اُسے سب یاد آتا گیا۔ دُرید کا گُناہ، اُس کی پریگنینسی اور بچپن کے نکاح کا پتہ چلنا، اُس کا گھر چھوڑ کے جانا این جی او میں رہنا، پھر ہسپتال میں بابا کے بارے میں پتہ چلنا، یادداشت جانا، درید کے ساتھ گھر آنا اور پھر درید کے ساتھ نئی ازدواجی زندگی شروع کرنا،اُسے سب یاد آگیا تھا۔ فون اُس کے ہاتھ سے چھوٹتا بیڈ پہ گِرا تھا اور خود وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ " ساوی " وہ اُس کی طرف بڑھا تو وہ چیخی۔ "دور رہیں مُجھ سے۔ قریب مت آئی گا میرا باپ چھین لیا مُجھ سے۔ میری خوشیاں برباد کر دیں چلیں جائیں یہاں سے۔" وہ ہذیانی انداز میں چیخ رہی تھی۔

   0
0 Comments